EN हिंदी
جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ | شیح شیری
juda nahin hai har ek mauj dekh aab ke bich

غزل

جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ

شاہ نصیر

;

جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
حباب بحر میں ہے بحر ہے حباب کے بیچ

لگا ہے جس سے مرے دل میں عشق کا کانٹا
ہوں مثل ماہیٔ بے تاب پیچ و تاب کے بیچ

کسو کے دل کی عمارت کا فکر کر منعم
بنا نہ گھر کو تو اس خانۂ خراب کے بیچ

ہر ایک چلنے کو یاں مستعد ہے شاہ سوار
زمیں پہ پاؤں ہے اک دوسرا رکاب کے بیچ

برنگ شمع چھپے حسن جلوہ گر کیوں کر
ہزار اس کو رکھیں برقع و نقاب کے بیچ

نصیرؔ آنکھوں میں اپنی لگے ہے یوں دو جہاں
خیال دیکھتے ہی جیسے شب کو خواب کے بیچ