جدا کیا تو بہت ہی ہنسی خوشی اس نے
بدل دیا ہے اب انداز بے رخی اس نے
وہ رنگ رنگ اڑا خوشبوؤں میں پھیل گیا
جھٹک دیا ہے مرا دامن تہی اس نے
جسے سنا کے مجھے خوف سر زنش سا رہا
اسی کلام پہ بڑھ چڑھ کے داد دی اس نے
وہ میرے ساتھ شروع سفر چلا تھا مگر
ہجوم شہر میں لی راہ اور ہی اس نے
ہوا ہوں جرأت جرم وفا سے بھی محروم
سزا یہ دی کہ خطا میری بخش دی اس نے
اب اپنی کوئی صدا ہے نہ اپنا کوئی پتہ
پلا دیا ہے مجھے زہر آگہی اس نے
در سکوت پہ حالیؔ بہت ہے شور صدا
بپا کیا ہے وہ طوفان خامشی اس نے
غزل
جدا کیا تو بہت ہی ہنسی خوشی اس نے
علیم اللہ حالی