EN हिंदी
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو | شیح شیری
juda kisi se kisi ka gharaz habib na ho

غزل

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو

نظیر اکبرآبادی

;

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو

جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچے سے
الٰہی راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو

علاج کیا کریں حکما تپ جدائی کا
سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو

نظیرؔ اپنا تو معشوق خوب صورت ہے
جو حسن اس میں ہے ایسا کوئی عجیب نہ ہو