جدا جدا سب کے خواب تعبیر ایک جیسی
ہمیں ازل سے ملی ہے تقدیر ایک جیسی
ہر اک کتاب عمل کے عنوان اپنے اپنے
ورق ورق پر قضا کی تحریر ایک جیسی
گزرتے لمحوں سے نقش کیا اپنے اپنے پوچھیں
ان آئنوں میں ہر ایک تصویر ایک جیسی
تری شرر باریوں مری خاکساریوں کی
ہوا کبھی تو کرے گی تشہیر ایک جیسی
یہ طے ہوا ایک بار سب آزما کے دیکھیں
نجات قلب و نظر کی تدبیر ایک جیسی
دلوں کے زمزم سے دھل کے نکلی ہوئی صدائیں
سماعتوں میں جگائیں تاثیر ایک جیسی
غزل
جدا جدا سب کے خواب تعبیر ایک جیسی
جلیل عالیؔ