EN हिंदी
جدا ہوئے وہ لوگ کہ جن کو ساتھ میں آنا تھا | شیح شیری
juda hue wo log ki jinko sath mein aana tha

غزل

جدا ہوئے وہ لوگ کہ جن کو ساتھ میں آنا تھا

شہریار

;

جدا ہوئے وہ لوگ کہ جن کو ساتھ میں آنا تھا
اک ایسا موڑ بھی ہماری رات میں آنا تھا

تجھ سے بچھڑ جانے کا غم کچھ خاص نہیں ہم کو
ایک نہ اک دن کھوٹ ہماری ذات میں آنا تھا

آنکھوں کو یہ کہتے سنتے رہتے ہیں ہر دم
سوکھے کو آنا تھا اور برسات میں آنا تھا

اک لمبی سنسان سڑک پر تنہا پھرتے ہیں
وہ آہٹ تھی ہم کو نہ اس کی بات میں آنا تھا

اے یادو تم ایسے کیوں اس وقت کہاں آئیں
کسی مناسب وقت نئے حالات میں آنا تھا