جدا ہوئے وہ لوگ کہ جن کو ساتھ میں آنا تھا
اک ایسا موڑ بھی ہماری رات میں آنا تھا
تجھ سے بچھڑ جانے کا غم کچھ خاص نہیں ہم کو
ایک نہ اک دن کھوٹ ہماری ذات میں آنا تھا
آنکھوں کو یہ کہتے سنتے رہتے ہیں ہر دم
سوکھے کو آنا تھا اور برسات میں آنا تھا
اک لمبی سنسان سڑک پر تنہا پھرتے ہیں
وہ آہٹ تھی ہم کو نہ اس کی بات میں آنا تھا
اے یادو تم ایسے کیوں اس وقت کہاں آئیں
کسی مناسب وقت نئے حالات میں آنا تھا
غزل
جدا ہوئے وہ لوگ کہ جن کو ساتھ میں آنا تھا
شہریار