جدا ہوئے تو جدائی میں یہ کمال بھی تھا
کہ اس سے رابطہ ٹوٹا بھی تھا بحال بھی تھا
وہ جانے والا ہمیں کس طرح بھلائے گا
ہمارے پیش نظر ایک یہ سوال بھی تھا
یہ اب جو دیکھ رہے ہو یہ کچھ نیا تو نہیں
یہ زندگی کا تماشا گزشتہ سال بھی تھا
یہ داغ لکھا تھا سیلاب کے مقدر میں
مرا مکان تو پہلے سے خستہ حال بھی تھا
غزل
جدا ہوئے تو جدائی میں یہ کمال بھی تھا
نوید رضا