EN हिंदी
جدا ہو کر وہ ہم سے ہے جدا کیا | شیح شیری
juda ho kar wo humse hai juda kya

غزل

جدا ہو کر وہ ہم سے ہے جدا کیا

شاعر لکھنوی

;

جدا ہو کر وہ ہم سے ہے جدا کیا
سماعت کا صدا سے فاصلہ کیا

خود اپنے عالم حیرت کو دیکھے
ترا منہ تک رہا ہے آئنا کیا

اندھیرا ہو گیا ہے شہر بھر میں
کوئی دل جلتے جلتے بجھ گیا کیا

لہو کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے
ترے رنگ حنا کا خوں بہا کیا

چراغوں کی صفیں سونی پڑی ہیں
ہمارے بعد محفل میں رہا کیا

دلوں میں بھی اتارو کوئی مہتاب
زمیں پر کھینچتے ہو دائرہ کیا

دیا اپنا بجھا دو خود ہی شاعرؔ
ہوائے نیم شب کا آسرا کیا