EN हिंदी
جو زندگی بچی ہے اسے خار کیا کریں | شیح شیری
jo zindagi bachi hai use Khaar kya karen

غزل

جو زندگی بچی ہے اسے خار کیا کریں

اشرف شاد

;

جو زندگی بچی ہے اسے خار کیا کریں
ہم بھی تمہارے ہوتے مگر یار کیا کریں

ہیں بند سب دکانیں کہ بازار عشق میں
ملتا نہیں ہے ہم سا خریدار کیا کریں

لڑتے رہے ہوا سے جلاتے رہے چراغ
اب اور روشنی کے طلب گار کیا کریں

احباب چل دیے ترے دربار کی طرف
اور ہم کہ آ گئے ہیں سر دار کیا کریں

سیدھی سی بات یہ ہے ہمیں تم سے پیار ہے
شعروں میں اس خیال کی تکرار کیا کریں

ہم جان دے چکے ہیں کئی بار عشق میں
اب یہ بتاؤ شادؔ کہ اس بار کیا کریں