جو زخم جمع کیے آنکھ بھر سناتا ہوں
سنو گے بند زباں کیا نظر سناتا ہوں
جو سن سکو تو سکوت پس نوا بھی سنو
یہی تو میں تمہیں شام و سحر سناتا ہوں
نگاہ لاؤ جو رنگ صدا کشید کرے
کہ میں تو خاموشیوں کے ہنر سناتا ہوں
یہی کمال ہے میرے الگ تکلم کا
خبر بھی ہوتی نہیں جو خبر سناتا ہوں
اگرچہ ایک ہی دریا کی نغمہ خوانی ہے
کنارہ صوت تری میں بھنور سناتا ہوں
تمہارے واسطے شاید مرا کلام نہ ہو
جنہیں خبر نہیں میں کیا خبر سناتا ہوں
ٹھہر گیا ہے مرے حرف کا یہی معیار
دھواں اڑاتا نہیں میں شرر سناتا ہوں
غزل
جو زخم جمع کیے آنکھ بھر سناتا ہوں
اقبال کوثر