جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا
بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا
لبوں سے اڑ گیا جگنو کی طرح نام اس کا
سہارا اب مرے گھر میں نہ روشنی کا رہا
گزرنے کو تو ہزاروں ہی قافلے گزرے
زمیں پہ نقش قدم بس کسی کسی کا رہا
غزل
جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا
کیفی اعظمی