جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں
لگاؤ ہے مری تنہائیوں سے فطرت کو
تمام رات ستارے لگائے جاتے ہیں
سمائی جاتی ہیں دل میں وہ کفر بار آنکھیں
یہ بت کدے مرے کعبے پہ چھائے جاتے ہیں
سمجھ حقیر نہ ان زندگی کے لمحوں کو
ارے انہیں سے زمانے بنائے جاتے ہیں
ہیں دل کے داغ بھی کیا دل کے داغ اے سیمابؔ
ٹپک رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں
غزل
جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں
سیماب اکبرآبادی