EN हिंदी
جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں | شیح شیری
jo umr teri talab mein ganwae jate hain

غزل

جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں

سیماب اکبرآبادی

;

جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں

لگاؤ ہے مری تنہائیوں سے فطرت کو
تمام رات ستارے لگائے جاتے ہیں

سمائی جاتی ہیں دل میں وہ کفر بار آنکھیں
یہ بت کدے مرے کعبے پہ چھائے جاتے ہیں

سمجھ حقیر نہ ان زندگی کے لمحوں کو
ارے انہیں سے زمانے بنائے جاتے ہیں

ہیں دل کے داغ بھی کیا دل کے داغ اے سیمابؔ
ٹپک رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں