EN हिंदी
جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے | شیح شیری
jo tu ho pas to dekhun bahaar aankhon se

غزل

جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے

میر محمدی بیدار

;

جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے
وگرنہ کرتے ہیں گل کار خار آنکھوں سے

کہاں ہے تو کہ میں کھینچوں ہوں راہ میں تیری
بسان نقش قدم انتظار آنکھوں سے

زبس کہ آتش غم شعلہ زن ہے سینہ میں
گریں ہیں اشک کی جاگہ شرار آنکھوں سے

میں یاد کر در دندان یار روتا ہوں
ٹپکتے ہیں گہر آب دار آنکھوں سے

ٹک آ کے دیکھ تو اے سرو قد مرا احوال
رواں ہے غم میں ترے جوئبار آنکھوں سے

چڑھاؤں دستۂ نرگس مزار مجنوں پر
جو دیکھوں آج میں روئے نگار آنکھوں سے

چمن میں کل کوئی تجھ سا پری نظر نہ پڑا
اگرچہ دیکھے ہیں جا کر ہزار آنکھوں سے

ہوا ہے دیدۂ بیدارؔ گل فشاں جب سے
گرا ہے تب سے یہ ابر بہار آنکھوں سے