جو تم سے ملا ہوگا جو تم نے دیا ہوگا
وہ غم بھی مسرت کے سانچے میں ڈھلا ہوگا
اے ہم سفرو اس کا کیا حال ہوا ہوگا
منزل کے قریب آ کر جو شخص لٹا ہوگا
ہم راہ محبت سے اس طرح سے گزریں گے
جو نقش قدم ہوگا تصویر وفا ہوگا
ہم تو تمہیں ہستی کا مختار سمجھتے ہیں
جو تم نے کہا ہوگا اچھا ہی کہا ہوگا
اب یوں ہی تڑپنے دو مجھ کو مرے غم خوارو
تسکین اگر دوگے درد اور سوا ہوگا
موجوں کی روانی سے محسوس یہ ہوتا ہے
دیوانہ کوئی غازیؔ طوفاں سے لڑا ہوگا
غزل
جو تم سے ملا ہوگا جو تم نے دیا ہوگا
شاہد غازی