جو تم ہو دو قدم آگے تو ہم ہیں دو قدم پیچھے
یہ فرق دو قدم کیا ہے نہ تم آگے نہ ہم پیچھے
صنم اس کے جمالی ہیں صنم اس کے خیالی ہیں
خدا سازی تھا شغل دیر رہتا کیوں حرم پیچھے
یہ کیا انصاف ہے عادل بڑھایا تشنگی پہلے
دیا تیری عدالت نے شعور شہد و سم پیچھے
یہ ہے تاریخ کا دربار کچھ درویش بیٹھے ہیں
کھڑے ہیں قیصر و فغفور و دارائے عجم پیچھے
بلندی شدت پرواز سے بنتی گئی یعنی
نظر آگے تھی اور ہر فاصلہ تھا بیش و کم پیچھے
یہاں بھی کر کے اک سجدہ وہاں بھی کر کے اک سجدہ
مسافر بڑھ گیا چیخا کیے دیر و حرم پیچھے
گلے اس سے بھی کٹتے ہیں گلے اس سے بھی کٹتے ہیں
رہے کیوں مظہریؔ تلوار سے اپنا قلم پیچھے
غزل
جو تم ہو دو قدم آگے تو ہم ہیں دو قدم پیچھے
جمیلؔ مظہری