جو تجھے پیکر صد ناز و ادا کہتے ہیں
قدرداں حسن کے یہ بات بجا کہتے ہیں
اس کے چہرے کی ضیا سے ہے چمک سورج کی
اس کی بکھری ہوئی زلفوں کو گھٹا کہتے ہیں
وہ جو آنکھوں سے پلائے تو چلو پی لیں گے
ویسے ہم پینے پلانے کو برا کہتے ہیں
سرخ ہاتھوں کی حقیقت تو ہمی جانتے ہیں
جو نہیں جانتے وہ رنگ حنا کہتے ہیں
بات اچھی ہی وہ کرتے ہیں ہمارے حق میں
جو ہمارے لیے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں
سخت پتھریلی زمیں پر بھی کھلاتے ہیں گلاب
شعر ہم کہتے ہیں اور سب سے سوا کہتے ہیں
یہ روایت ہے زمانے کی نئی بات نہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج گہوارے میں بیٹھے ہیں سبھی اہل ادب
اس فضا ہی کو محبت کی فضا کہتے ہیں
ہم نے کی مشق سخن مصرعۂ غالبؔ پہ ندیمؔ
لوگ اس بارے میں اب دیکھیے کیا کہتے ہیں

غزل
جو تجھے پیکر صد ناز و ادا کہتے ہیں
فرحت ندیم ہمایوں