EN हिंदी
جو تجھے دیکھ کے مبہوت ہوا | شیح شیری
jo tujhe dekh ke mabhut hua

غزل

جو تجھے دیکھ کے مبہوت ہوا

سراج اورنگ آبادی

;

جو تجھے دیکھ کے مبہوت ہوا
خون دل اس کو سدا قوت ہوا

جو موا دیکھ ترے عارض کوں
شاخ گل کا اسے تابوت ہوا

جو اٹھا مجلس ناسوتی میں
محرم خلوت لاہوت ہوا

نوک مژگان صنم حق میں مرے
تیز جوں نیزۂ رجپوت ہوا

اشک خونیں شب ہجراں کا سراجؔ
روغن شعلۂ یاقوت ہوا