جو تجھے دیکھ کے مبہوت ہوا
خون دل اس کو سدا قوت ہوا
جو موا دیکھ ترے عارض کوں
شاخ گل کا اسے تابوت ہوا
جو اٹھا مجلس ناسوتی میں
محرم خلوت لاہوت ہوا
نوک مژگان صنم حق میں مرے
تیز جوں نیزۂ رجپوت ہوا
اشک خونیں شب ہجراں کا سراجؔ
روغن شعلۂ یاقوت ہوا
غزل
جو تجھے دیکھ کے مبہوت ہوا
سراج اورنگ آبادی