جو ترے غم کی گرانی سے نکل سکتا ہے
ہر مصیبت میں روانی سے نکل سکتا ہے
تو جو یہ جان ہتھیلی پہ لیے پھرتا ہے
تیرا کردار کہانی سے نکل سکتا ہے
شہر انکار کی پر پیچ سی ان گلیوں سے
تو فقط عجز بیانی سے نکل سکتا ہے
گردش دور ترے ساتھ چلے چلتا ہوں
کام اگر نقل مکانی سے نکل سکتا ہے
اے مری قوم چلی آ مرے پیچھے پیچھے
کوئی رستہ بھی تو پانی سے نکل سکتا ہے
غزل
جو ترے غم کی گرانی سے نکل سکتا ہے
احمد خیال