EN हिंदी
جو ترے غم کی گرانی سے نکل سکتا ہے | شیح شیری
jo tere gham ki girani se nikal sakta hai

غزل

جو ترے غم کی گرانی سے نکل سکتا ہے

احمد خیال

;

جو ترے غم کی گرانی سے نکل سکتا ہے
ہر مصیبت میں روانی سے نکل سکتا ہے

تو جو یہ جان ہتھیلی پہ لیے پھرتا ہے
تیرا کردار کہانی سے نکل سکتا ہے

شہر انکار کی پر پیچ سی ان گلیوں سے
تو فقط عجز بیانی سے نکل سکتا ہے

گردش دور ترے ساتھ چلے چلتا ہوں
کام اگر نقل مکانی سے نکل سکتا ہے

اے مری قوم چلی آ مرے پیچھے پیچھے
کوئی رستہ بھی تو پانی سے نکل سکتا ہے