جو تیری راہ گزر میں چبھا تھا خار مجھے
سفر کی یاد دلاتا ہے بار بار مجھے
وہ خوش ادا ہے بہت لوگ مجھ سے کہتے ہیں
مگر یہ بات گزرتی ہے ناگوار مجھے
تمام عمر گزر جائے تجھ تک آنے میں
نہ اتنی دور سے اے زندگی پکار مجھے
زمانہ بیت گیا محو رقص چاک پہ ہوں
کوئی بھی شکل ہو اے کوزہ گر اتار مجھے
میں شوق دید لیے آ گیا تھا کوچے میں
کہ چھوڑتا ہی نہیں اب ترا دیار مجھے
میں اپنے کوئے تمنا میں منتظر ہی رہا
تلاش کرتی رہی دشت میں بہار مجھے
جفا ہو یا کہ وفا میں اسیر درد رہا
کسی بھی طور نہ آیا کبھی قرار مجھے
جب اس نے توڑ دیا رشتۂ وفا طارقؔ
تو پھر یہ کس لیے اس کا ہے انتظار مجھے

غزل
جو تیری راہ گزر میں چبھا تھا خار مجھے
شارق بلیاوی