EN हिंदी
جو تیری آنکھ ہے پر نم یہی محبت ہے | شیح شیری
jo teri aankh hai pur-nam yahi mohabbat hai

غزل

جو تیری آنکھ ہے پر نم یہی محبت ہے

کاشف رفیق

;

جو تیری آنکھ ہے پر نم یہی محبت ہے
کہ تجھ کو ہے جو مرا غم یہی محبت ہے

ہزاروں میل کی دوری کے باوجود اے دوست
جو ہم میں ربط ہے پیہم یہی محبت ہے

تری جدائی کے موسم میں جان جاں مجھ کو
جو بھوک پیاس ہے کم کم یہی محبت ہے

ترے بغیر جو خوابوں کے شہر میں بھی دوست
مرا مزاج ہے برہم یہی محبت ہے

وصال رت ہو فرقت ہمارے دل میں صنم
جو بیکلی سی ہے دم دم یہی محبت ہے

مرا یقین کہ یوم الست میں کاشفؔ
کیا گیا ہمیں باہم یہی محبت ہے