جو تکبر سے بھٹکتی ہے زباں
آگے آگے پھر بہکتی ہے زباں
ہو گیا ناسور ہر اک لفظ ہے
بولتا ہوں پکنے لگتی ہے زباں
جلد سے چھن چھن کے بہتے ہیں خیال
اور آنکھوں سے چھلکتی ہے زباں
نام جاں کتنا گراں ہے جان پہ
حلق گلتا ہے پگھلتی ہے زباں
معجزہ ہے یہ بھی اس کے قول کا
بوند بن کر جو برستی ہے زباں
کچھ ملاقاتوں میں ہی ہے یہ اثر
تجھ میں بھی میری جھلکتی ہے زباں
غزل
جو تکبر سے بھٹکتی ہے زباں
عاطف خان