جو تبسموں سے ہو گلفشاں وہی لب ہنسی کو ترس گئے
ہمیں شہریار حیات تھے ہمیں زندگی کو ترس گئے
یہ عجیب صبح بہار ہے کوئی زندگی کی کرن نہیں
ہمیں خالق مہ و مہر ہیں ہمیں روشنی کو ترس گئے
یہ چمن ہے کیسا چمن جہاں تہی دامنی ہی نصیب ہے
یہ بہار کیسی بہار ہے کہ کلی کلی کو ترس گئے
نہ کرم نہ کوئی عتاب ہے کوئی اس ادا کا جواب ہے
کبھی دوستی کو ترس گئے کبھی دشمنی کو ترس گئے
وہی منزلوں سے بھٹک گئے نہ جنوں کے ساتھ جو چل سکے
جو فریب ہوش میں آ گئے رہ آگہی کو ترس گئے
ہے عجب نصیب بھی عشق کا نہ وفا ملی نہ جفا ملی
ترے التفات کی کیا خبر تری بے رخی کو ترس گئے
میں پیامؔ کافر عشق ہوں مری گمرہی بھی ہے بندگی
کہ فدائے کعبہ و دیر بھی مری کافری کو ترس گئے
غزل
جو تبسموں سے ہو گلفشاں وہی لب ہنسی کو ترس گئے
پیام فتحپوری