جو سنتے ہیں تو میں ممنون ہوں ان کی عنایت کا
کہوں کیا اب کہ موقع ہی نہیں باقی شکایت کا
نیا مضمون کیا ہوتا وہ خط میں اور کیا لکھتے
وہی آیا ہے جو لکھا ہوا تھا اپنی قسمت کا
ہمیں تو آپ کی بیباکیوں سے ڈر ہی رہتا ہے
نہیں معلوم کس دن وقت آ جائے ندامت کا
نظر آتا نہیں اب گھر میں وہ بھی اف رے تنہائی
اک آئینہ میں پہلے آدمی تھا میری صورت کا
تھکے احباب آخر ہر طرح ناطقؔ کو سمجھا کر
اثر منت سماجت کا نہ کچھ لعنت ملامت کا
غزل
جو سنتے ہیں تو میں ممنون ہوں ان کی عنایت کا
ناطق گلاوٹھی