EN हिंदी
جو سنتا ہوں کہوں گا میں جو کہتا ہوں سنوں گا میں | شیح شیری
jo sunta hun kahunga main jo kahta hun sununga main

غزل

جو سنتا ہوں کہوں گا میں جو کہتا ہوں سنوں گا میں

انور شعور

;

جو سنتا ہوں کہوں گا میں جو کہتا ہوں سنوں گا میں
ہمیشہ مجلس نطق و سماعت میں رہوں گا میں

نہیں ہے تلخ گوئی شیوۂ سنجیدگاں لیکن
مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں

کم از کم گھر تو اپنا ہے اگر ویران بھی ہوگا
تو دہلیز و در و دیوار سے باتیں کروں گا میں

یہی احساس کافی ہے کہ کیا تھا اور اب کیا ہوں
مجھے بالکل نہیں تشویش آگے کیا بنوں گا میں

مری آنکھوں کا سونا چاہے مٹی میں بکھر جائے
اندھیری رات تیری مانگ میں افشاں بھروں گا میں

حصول آگہی کے وقت کاش اتنی خبر ہوتی
کہ یہ وہ آگ ہے جس آگ میں زندہ جلوں گا میں

کوئی اک آدھ تو ہوگا مجھے جو راس آ جائے
بساط وقت پر ہیں جس قدر مہرے چلوں گا میں

اگر اس مرتبہ بھی آرزو پوری نہیں ہوگی
تو اس کے بعد آخر کس بھروسے پر جیوں گا میں

یہی ہوگا کسی دن ڈوب جاؤں گا سمندر میں
تمناؤں کی خالی سیپیاں کب تک چنوں گا میں