جو سوچتے رہے وہ کر گزرنا چاہتے ہیں
کہ خواب آنکھوں سے گھر میں اترنا چاہتے ہیں
سنائی دیتی ہے ہر سمت سے نوید بقا
امیر شہر کہ جب لوگ مرنا چاہتے ہیں
پرندہ خوف زدہ ہیں کہ پالنے والے
پروں کے ساتھ زباں بھی کترنا چاہتے ہیں
زمیں کی آرزو سیراب ہو کسی صورت
سمندروں میں جزیرے ابھرنا چاہتے ہیں
ابھرنے لگتی ہے اک چیخ اس کنارے پر
ہم اس کنارے پہ جب بھی اترنا چاہتے ہیں
عدم ثبوت و شہادت میں ہوں بری تو وقارؔ
ہم اپنے جرم کا اقبال کرنا چاہتے ہیں

غزل
جو سوچتے رہے وہ کر گزرنا چاہتے ہیں
وقار فاطمی