جو شخص راہ بناتا رہا درختوں میں
اسی کو چھوڑ گیا راستہ درختوں میں
اچھل پڑا تھا جب اک بار جھیل کا پانی
بدن چھپاتی پھری تھی ہوا درختوں میں
نکل تو آئی کرن آرزو کے جنگل سے
الجھ کے رہ گئی لیکن قبا درختوں میں
زمانے بھر کی تمازت سے تھا سکوں لیکن
عجیب خوف کا احساس تھا درختوں میں
کہیں چراغ کہیں آئینہ کہیں خوشبو
رواں ہے کوئی عجب قافلہ درختوں میں
غزل
جو شخص راہ بناتا رہا درختوں میں
خاور اعجاز