جو شخص اکیلا ہی بوجھل سفر سے آیا تھا
کسی نے پوچھا وہ لٹ کر کدھر سے آیا تھا
یہ روشنی تو مری وحشتیں بڑھا گئی اور
میں روشنی میں اندھیروں کے ڈر سے آیا تھا
جسے کہیں بھی نہ ٹکنے دیا ہواؤں نے
وہ برگ کچھ بھی تھا کٹ کر شجر سے آیا تھا
جو سنگ اتنی حرارت لہو کو بخش گیا
مجھے نوازنے میرے ہی گھر سے آیا تھا
نوید آمد چارہ گراں کو جگ بیتے
قرار دل کو ذرا اس خبر سے آیا تھا
ہم اتنے آئے جھلس کر کسی نے یہ نہ کہا
تمہارا قافلہ کس رہگزر سے آیا تھا
ملا جو کوزے کو آنچوں میں تپ کے رنگ ثبات
وہ پہلے شعلگئ کوزہ گر سے آیا تھا
عجیب دھن کا مسافر تھا کوچ کر گیا آج
غریب گھر کی ہی چاہت میں گھر سے آیا تھا
غزل
جو شخص اکیلا ہی بوجھل سفر سے آیا تھا
محشر بدایونی