جو شب ہوئی تو نظارے اتر کے آئے ہیں
زمیں پہ دیکھو ستارہ اتر کے آئے ہیں
کسی کی نیند ابھی تک ہے بیچ دریا میں
کسی کے خواب کنارے اتر کے آئے ہیں
ہوا کے لمس نے آواز دی ہے ماضی کو
بجھے سے دل پہ شرارے اتر کے آئے ہیں
یہ کس کا ذکر ہواؤں نے آج چھیڑا ہے
لہوں کے آنکھ سے دھارے اتر کے آئے ہیں
بھٹک رہے تھے خلاؤں میں چاند تارے جو
تری تلاش میں سارے اتر کے آئے ہیں
فلک کو دیکھ کے جیوتیؔ یہی ہوا محسوس
فلک پہ رنگ تمہارے اتر کے آئے ہیں
غزل
جو شب ہوئی تو نظارے اتر کے آئے ہیں
جیوتی آزاد کھتری