EN हिंदी
جو شب ہوئی تو نظارے اتر کے آئے ہیں | شیح شیری
jo shab hui to nazare utar ke aae hain

غزل

جو شب ہوئی تو نظارے اتر کے آئے ہیں

جیوتی آزاد کھتری

;

جو شب ہوئی تو نظارے اتر کے آئے ہیں
زمیں پہ دیکھو ستارہ اتر کے آئے ہیں

کسی کی نیند ابھی تک ہے بیچ دریا میں
کسی کے خواب کنارے اتر کے آئے ہیں

ہوا کے لمس نے آواز دی ہے ماضی کو
بجھے سے دل پہ شرارے اتر کے آئے ہیں

یہ کس کا ذکر ہواؤں نے آج چھیڑا ہے
لہوں کے آنکھ سے دھارے اتر کے آئے ہیں

بھٹک رہے تھے خلاؤں میں چاند تارے جو
تری تلاش میں سارے اتر کے آئے ہیں

فلک کو دیکھ کے جیوتیؔ یہی ہوا محسوس
فلک پہ رنگ تمہارے اتر کے آئے ہیں