جو سجتا ہے کلائی پر کوئی زیور حسینوں کی
تبھی بڑھتی ہیں قیمت جوہری تیرے نگینوں کی
اٹھا دیتی ہے دیواریں دلوں کے بیچ یہ اکثر
ضرورت کیوں ہو پھر ہم کو بھلا ایسی زمینوں کی
اسی میں چھید کرتے ہیں کہ جس تھالی میں کھاتے ہیں
بدل سکتی نہیں عادت کبھی ایسی کمینوں کی
بھرا ہے لاکھ پھولوں سے مرے گھر کا حسیں آنگن
یہی ہے میری دولت مجھ کو کیا چاہت دفینوں کی
کبھی محنت مشقت سے کما لو گے بہت دولت
مگر بدلو گے تم کیسے لکیروں کو جبینوں کی
اٹھا کر ایک بار ان کو لگا لو اپنے ہونٹوں سے
چھوئیں گی آسماں کو قیمتیں ان آبگینوں کی
جو نکتہ چیں ہیں رہنا ہے ہمیشہ نکتہ چیں ان کو
بدل سکتی نہیں فطرت کبھی بھی نکتہ چینوں کی
غزل
جو سجتا ہے کلائی پر کوئی زیور حسینوں کی
شوبھا ککل