EN हिंदी
جو صحرا ہے اسے کیسے سمندر لکھ دیا جائے | شیح شیری
jo sahra hai use kaise samundar likh diya jae

غزل

جو صحرا ہے اسے کیسے سمندر لکھ دیا جائے

مرلی دھر شرما طالب

;

جو صحرا ہے اسے کیسے سمندر لکھ دیا جائے
غزل میں کس طرح رہزن کو رہبر لکھ دیا جائے

قلم کے دوش پر ہو امتحاں کا بوجھ جس حد تک
مگر حق تو یہ ہے پتھر کو پتھر لکھ دیا جائے

کسی انعام کی خاطر نہ ہوگا ہم سے یہ ہرگز
کہ اک شاہین کو جنگلی کبوتر لکھ دیا جائے

ستم کی داستاں کس روشنائی سے رقم ہوگی
لہو کی دھار سے دفتر کا دفتر لکھ دیا جائے

کسانوں کو میسر جب نہیں دو وقت کی روٹی
تو ایسے کھیت کو بے سود و بنجر لکھ دیا جائے

ہماری تشنگی سے بھی کوئی مسرور ہوتا ہے
ہماری پیاس کو لبریز ساغر لکھ دیا جائے

قلم کو میں نے بھی تلوار آخر کر لیا طالبؔ
مری نوک قلم کو نوک خنجر لکھ دیا جائے