جو صدا گونجتی تھی کانوں میں
منجمد ہو گئی زبانوں میں
لمحہ لمحہ پگھل رہی ہے حیات
خواب کی یخ زدہ چٹانوں میں
کتنے جذبات ہو گئے آہن
ان مشینوں کے کارخانوں میں
شہد کا گھونٹ بن گیا ہوگا
ذائقہ زہر کا زبانوں میں
خامشی بھوت بن کے رہتی ہے
آج انسان کے مکانوں میں
اک حسیں پھول بن کے گرتی ہے
برق بھی میرے آشیانوں میں
فن کو نیلام کر دیا آخر
کیفؔ لوگوں نے چند آنوں میں
غزل
جو صدا گونجتی تھی کانوں میں
کیف احمد صدیقی