جو سامنا بھی کبھی یار خوب رو سے ہوا
زمانے بھر کا یرش مجھ پہ چار سو سے ہوا
کہا اشاروں سے میں نے کہ تم پہ مرتا ہوں
جو نطق بند مرا ان کی گفتگو سے ہوا
کسی کو بھی نہ ہوس تھی حلال ہونے کی
رواج شوق شہادت مرے گلو سے ہوا
جدھر نگاہ کی جلوہ ترا نظر آیا
کمال کشف مجھے تیری آرزو سے ہوا
کھلا نہ حال کسی پر کہ کیا مزاج میں ہے
خدائی میں کوئی واقف نہ اس کی خو سے ہوا
عجب گھڑی سے گریباں پھٹا تھا مجنوں کا
تمام عمر نہ واقف کبھی رفو سے ہوا
بڑے بڑوں کو لگایا نہ منہ کبھی میں نے
وہ ظرف ہوں کہ نہ واقف کبھی سبو سے ہوا
وہ خود بھی کر گئے تر آنسوؤں سے تربت کو
گلی میں یار کی مدفون اس آبرو سے ہوا
بہار باغ کو آئے جو دیکھنے بے یار
دماغ اور پریشاں گلوں کی بو سے ہوا
چڑھائے گور غریباں پہ گل جو اس گل نے
چمن بہشت کا پیدا مقام ہو سے ہوا
حلال ہونے کو صیاد سے محبت کی
قضا جو آئی تو مانوس میں عدو سے ہوا
خدائی کرنے لگا یار بے نیازی سے
بڑا غرور اسے میری آرزو سے ہوا
جہاں سے محفل معراج میں ہوئی طلبی
بشر کا مرتبہ یہ اس کی جستجو سے ہوا
لگاتے ہیں جو سب آنکھوں سے آب زمزم کو
شرفؔ یہ فیض کا چشمہ مری وضو سے ہوا
غزل
جو سامنا بھی کبھی یار خوب رو سے ہوا
آغا حجو شرف