EN हिंदी
جو سالک ہے تو اپنے نفس کا عرفان پیدا کر | شیح شیری
jo salik hai to apne nafs ka irfan paida kar

غزل

جو سالک ہے تو اپنے نفس کا عرفان پیدا کر

سیماب اکبرآبادی

;

جو سالک ہے تو اپنے نفس کا عرفان پیدا کر
حقیقت تیری کیا ہے پہلے یہ پہچان پیدا کر

جہاں جانے کو سب دشوار ہی دشوار کہتے ہیں
وہاں جانے کا کوئی راستہ آسان پیدا کر

حقیقت کا کہے جو حال کر ایسی زباں پیدا
محبت کے سنیں جو گیت ایسے کان پیدا کر

حدود عالم تکویں میں سب ممکن ہی ممکن ہے
تو نا ممکن کے جھگڑے میں نہ پڑا امکان پیدا کر

الٰہی بھید تیرے اس نے ظاہر کر دیئے سب پر
کہا تھا کس نے تو سیمابؔ کو انسان پیدا کر