EN हिंदी
جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا | شیح شیری
jo raqibon ne kaha tu wahi bad-zan samjha

غزل

جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا

شاہ نصیر

;

جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا
دوست افسوس نہ سمجھا مجھے دشمن سمجھا

ناتواں وہ ہوں کہ بستر پہ مجھے دیکھ کے آہ
تار بستر کوئی سمجھا کوئی سوزن سمجھا

تیغ قاتل جو محبت سے لگی آ کے گلے
تاب کو اس کی میں اپنی رگ گردن سمجھا

اپنے پاجامۂ کمخواب کی ہر بوٹی کو
شمع رو شب کو چراغ تہہ دامن سمجھا

سرعت ابلق ایام سے غافل تھا آہ
دم آخر میں اسے عمر کا توسن سمجھا

خار صحرا سے چھدی جب کف پا مجنوں کی
خاک بیزی کو وہ غربال کا روزن سمجھا

کمر یار کا ازبسکہ جو رہتا ہے خیال
دل کو میں چینیٔ مو دار کا برتن سمجھا

گل کو معلوم نہ تھی ہستئ فانی اپنی
اے نسیم سحری وقت شگفتن سمجھا

بستر گل سے منقش جو ہوا اس کا بدن
تن نازک پہ وہ پھلکاری کی چپکن سمجھا

جیتے جی چاہئے ہے عاقبت کار کی فکر
فائدہ کیا اگر انساں پس مردن سمجھا

میرزائی کو نہ فریاد نے چھوڑا تا مرگ
جیغۂ سر تجھے اے تیشۂ آہن سمجھا

عکس افگن ہے ترے ساغر صہبا میں یہ زلف
تو عبث اے بت مے کش اسے ناگن سمجھا

سایۂ زلف نے اس کے یہ دیا دھوکا رات
چلنے والوں نے جسے افعی رہزن سمجھا

چشم نے اپنی طرف سے تو سجھائی تھی نصیرؔ
دل نہ پر اس ستم ایجاد کی چتون سمجھا