جو پوچھا صبر ہجر غیر میں کیا ہو نہیں سکتا
تو جھنجھلا کے کہا تیرا کلیجا ہو نہیں سکتا
وہ کہنا میرا اب تو صبر ہو سکتا نہیں ہم سے
تجاہل سے وہ ان کا پوچھنا کیا ہو نہیں سکتا
سبب کیا غیر سے کیوں ترک الفت ہو نہیں سکتی
تم ایسا کر نہیں سکتے کہ ایسا ہو نہیں سکتا
یہ بت قسمت کے پورے ہٹ کے پورے دھن کے پورے ہیں
کوئی ان میں سے ہو وعدے کا پورا ہو نہیں سکتا
نسیمؔ اور آپ کو رسوا کرے یہ غیرممکن ہے
یہ فقرہ ہے کسی کا اس سے ایسا ہو نہیں سکتا

غزل
جو پوچھا صبر ہجر غیر میں کیا ہو نہیں سکتا
نسیم بھرتپوری