EN हिंदी
جو پوچھا راہیوں نے کیا اٹھا کر جیب میں رکھ لی | شیح شیری
jo puchha rahiyon ne kya uTha kar jeb mein rakh li

غزل

جو پوچھا راہیوں نے کیا اٹھا کر جیب میں رکھ لی

جوہر سیوانی

;

جو پوچھا راہیوں نے کیا اٹھا کر جیب میں رکھ لی
اٹھائی جو اٹھنی وہ دکھا کر جیب میں رکھ لی

ہوا جب عقد تو بانٹی مرے سالے نے شیرینی
مگر اس میں سے تھوڑی سی بچا کر جیب میں رکھ لی

نمازیں بھی ادا ہوتی رہیں ان کی مگر جب بھی
ملی رشوت تو حاکم نے چھپا کر جیب میں رکھ لی

عجب شاعر کی عادت ہے کہ جب بیڑی جلانے کو
کسی سے مانگی ماچس تو جلا کر جیب میں رکھ لی

سر محفل کچھ اس انداز سے ہونے لگی ہوٹنگ
کہ جوہرؔ نے غزل آدھی سنا کر جیب میں رکھ لی