جو پوچھا راہیوں نے کیا اٹھا کر جیب میں رکھ لی
اٹھائی جو اٹھنی وہ دکھا کر جیب میں رکھ لی
ہوا جب عقد تو بانٹی مرے سالے نے شیرینی
مگر اس میں سے تھوڑی سی بچا کر جیب میں رکھ لی
نمازیں بھی ادا ہوتی رہیں ان کی مگر جب بھی
ملی رشوت تو حاکم نے چھپا کر جیب میں رکھ لی
عجب شاعر کی عادت ہے کہ جب بیڑی جلانے کو
کسی سے مانگی ماچس تو جلا کر جیب میں رکھ لی
سر محفل کچھ اس انداز سے ہونے لگی ہوٹنگ
کہ جوہرؔ نے غزل آدھی سنا کر جیب میں رکھ لی
غزل
جو پوچھا راہیوں نے کیا اٹھا کر جیب میں رکھ لی
جوہر سیوانی