EN हिंदी
جو پڑ گئی تھی گرہ دل میں کھولتے ہم بھی | شیح شیری
jo paD gai thi girah dil mein kholte hum bhi

غزل

جو پڑ گئی تھی گرہ دل میں کھولتے ہم بھی

قمر اقبال

;

جو پڑ گئی تھی گرہ دل میں کھولتے ہم بھی
وہ بات کرتا تو کچھ اس سے بولتے ہم بھی

ہوا کو کس نے چھوا ہے جو تجھ کو چھو پاتے
خلا میں پھرتے ہیں رستہ ٹٹولتے ہم بھی

کہاں پہ ٹھہریں کہ مانند برگ آوارہ
ہوا کے دوش پہ پھرتے ہیں ڈولتے ہم بھی

اندھیرا شہر کی گلیوں کا گھر میں در آتا
ذرا جو رات کو دروازہ کھولتے ہم بھی

قمرؔ یہ لطف نہ جینے کا پھر ہمیں آتا
لہو میں زہر اگر خود نہ گھولتے ہم بھی