جو نیکیوں سے بدی کا جواب دیتا ہے
خدا بھی اس کو صلہ بے حساب دیتا ہے
اسی کے حکم سے گھر بار اجڑ بھی جاتے ہیں
وہی پھر ان کو بسانے کے خواب دیتا ہے
بشر پہ قرض جو ہوتے ہیں کار ہائے جہاں
تمام عمر وہ ان کا حساب دیتا ہے
غرض یہ ہے نہ ہو فکر و عمل میں کوتاہی
خدا دلوں کو اگر اضطراب دیتا ہے
قصور اس میں بھی ہے والدین کا شاید
جو بچا ان کو پلٹ کر جواب دیتا ہے
کٹی ہے عمر عذابوں میں دیکھنا ہے اب
مزید کیا دل خانہ خراب دیتا ہے
وہ آزماتا ہے کانٹوں سے صبر انساں کا
پھر اس کے بعد مہکتے گلاب دیتا ہے
سوال دید و ملاقات کر چکے ہیں چاندؔ
اب آگے دیکھیے وہ کیا جواب دیتا ہے
غزل
جو نیکیوں سے بدی کا جواب دیتا ہے
مہندر پرتاپ چاند