جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں
مری ذات عین کی عین ہے وہاں دوسری کا نشاں نہیں
وہی دو جہاں میں ہے مفتخر جیسے عینیت کی ہوئی خبر
وہی حکمراں ہے جہان میں وہاں کفر و دیں کا گماں نہیں
رہے غیریت کے حجاب میں جو خدا نما سے نہیں ملے
جو خدا کو ان سے طلب کئے رہی بات ان پہ نہاں نہیں
جسے ہو ثبوت وجود کا وہی حق شناس ہے با خبر
انہیں جملہ آوے خدا نظر وہ خدا کو دیکھے کہاں نہیں
میں وطن میں آپ سفر کیا جو قدم کو اپنی نظر کیا
ملا اپنا آپ پتہ مجھے جہاں غیریت کا بیاں نہیں
میں تو ایک مرکزؔ دہر ہوں جو خدا نما کے نشان سے
جو بتاؤں حق کا پتہ جسے رہے باقی اس کو گماں نہیں

غزل
جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں
یاسین علی خاں مرکز