جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے
نیرنگ تماشا وہ جلوا نظر آتا ہے
آنکھوں سے اگر دیکھو پردہ نظر آتا ہے
لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے
فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے
اے پردہ نشیں ضد ہے کیا چشم تمنا کو
تو دفتر گل میں بھی رسوا نظر آتا ہے
نظارہ بھی اب گم ہے بے خود ہے تماشائی
اب کون کہے اس کو جلوا نظر آتا ہے
جو کچھ تھی یہاں رونق سب باد چمن سے تھی
اب کنج قفس مجھ کو سونا نظر آتا ہے
احساس میں پیدا ہے پھر رنگ گلستانی
پھر داغ کوئی دل میں تازہ نظر آتا ہے
تھی فرد عمل اصغرؔ کیا دست مشیت میں
اک ایک ورق اس کا سادا نظر آتا ہے
غزل
جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
اصغر گونڈوی