EN हिंदी
جو نقش‌ برگ کرم ڈال ڈال ہے اس کا | شیح شیری
jo naqsh-e-barg-e-karam Dal Dal hai us ka

غزل

جو نقش‌ برگ کرم ڈال ڈال ہے اس کا

حسن عزیز

;

جو نقش‌ برگ کرم ڈال ڈال ہے اس کا
تو دشت آگ اگلتا جلال ہے اس کا

دیار دیدہ و دل میں میں سوچتا ہوں اسے
کہ اس سے آگے تصور محال ہے اس کا

ادھوری بات ہے ذکر مقیم شہر جنوب
ہر اک مسافر راہ شمال ہے اس کا

بدن کے دشت میں اس کی ہی گونج ہے ہر سو
جواب اس کے ہیں ہر اک سوال ہے اس کا

اسی کا ہے یہ بھرا شہر دشت خالی بھی
یہ بھیڑ اس کی ہے قحط‌ الرجال ہے اس کا

میں سوچتا ہوں کہ تصویر خاک کو میری
ہزار رنگ میں رنگنا کمال ہے اس کا

وہ آئنہ بھی حسنؔ اس کے فن کا جادو ہے
یہ چہرہ بھی ہنر لا زوال ہے اس کا