جو نہیں کیا اب تک بے حساب کرنا ہے
اپنے ہر رویے سے اجتناب کرنا ہے
اب تو کام آئے گی بے گمان سفاکی
خوش گوار پھولوں کو آفتاب کرنا ہے
رنگ اپنی چھتری کا دھوپ نے مٹا ڈالا
صبح ہونے سے پہلے پھر خضاب کرنا ہے
سرفروش لہروں کی سرفروشیاں کب تک
سرفروش لہروں کو زیر آب کرنا ہے
راستے ذہانت کے تاجروں پہ کھلتے ہیں
اس صدی کے چہروں کو بے نقاب کرنا ہے
غزل
جو نہیں کیا اب تک بے حساب کرنا ہے
واجد قریشی