EN हिंदी
جو نہیں کیا اب تک بے حساب کرنا ہے | شیح شیری
jo nahin kiya ab tak be-hisab karna hai

غزل

جو نہیں کیا اب تک بے حساب کرنا ہے

واجد قریشی

;

جو نہیں کیا اب تک بے حساب کرنا ہے
اپنے ہر رویے سے اجتناب کرنا ہے

اب تو کام آئے گی بے گمان سفاکی
خوش گوار پھولوں کو آفتاب کرنا ہے

رنگ اپنی چھتری کا دھوپ نے مٹا ڈالا
صبح ہونے سے پہلے پھر خضاب کرنا ہے

سرفروش لہروں کی سرفروشیاں کب تک
سرفروش لہروں کو زیر آب کرنا ہے

راستے ذہانت کے تاجروں پہ کھلتے ہیں
اس صدی کے چہروں کو بے نقاب کرنا ہے