جو نہیں ہے اسی منظر میں بہت ہوتا ہے
یہ سنا ہے تو مرے گھر میں بہت ہوتا ہے
ہارنا میرا مقدر ہے یہ سب جانتے ہیں
شور پھر کیوں مرے لشکر میں بہت ہوتا ہے
ایسے ہی آتی نہیں عشق میں سجدہ صفتی
خون کا زور قلندر میں بہت ہوتا ہے
وقت سے دہر کی ہر چیز پہ ہوتا ہے اثر
کم جو دکھتا ہے مقدر میں بہت ہوتا ہے
پیاس بجھتی ہے کہاں تشنہ لبوں کی اس سے
پانی کہنے کو سمندر میں بہت ہوتا ہے
کچھ کرشمہ بھی دکھاتی ہے لہو کی خوشبو
کچھ مزا بھی ہوس زر میں بہت ہوتا ہے
طورؔ وہ چاہے تو سرسبز مجھے بھی کر دے
معجزہ دست ہنر ور میں بہت ہوتا ہے
غزل
جو نہیں ہے اسی منظر میں بہت ہوتا ہے
کرشن کمار طورؔ

