جو نفرتوں کا جمال ٹھہرا
محبتوں کا زوال ٹھہرا
نہ آنکھ روئی نہ دل پسیجا
تمہارا جانا کمال ٹھہرا
تمہاری یادیں جہاں بھی ٹھہریں
وہیں پہ دل میں ملال ٹھہرا
جواب کیونکر دلیل کس کو
ہمارے لب پہ سوال ٹھہرا
جو ہم نے سوچا تھا عشق ہوگا
فقط ہمارا خیال ٹھہرا
وہ سن کے چپ ہیں کہانی اپنی
یہ ہمرا جاہ و جلال ٹھہرا
وہ ہم سے مل کر بھی مل نہ پائے
عجب ہمارا وصال ٹھہرا
وہ خود کے جیسا ہی دوسرا ہے
وہ آپ اپنی مثال ٹھہرا
نہ نیند آوے نہ چین پاویں
ادھورا سپنا وبال ٹھہرا
علیؔ کو یا رب بلاؤ واپس
کہ اس کا جینا محال ٹھہرا

غزل
جو نفرتوں کا جمال ٹھہرا
علی سرمد