EN हिंदी
جو ناروا تھا اس کو روا کرنے آیا ہوں | شیح شیری
jo narawa tha isko rawa karne aaya hun

غزل

جو ناروا تھا اس کو روا کرنے آیا ہوں

ظفر اقبال

;

جو ناروا تھا اس کو روا کرنے آیا ہوں
میں قرض دوسروں کا ادا کرنے آیا ہوں

اک تازہ تر فتور مرے سر میں اور ہے
جو کر چکا ہوں اس سے سوا کرنے آیا ہوں

خود اک سوال ہے مرا آنا ہی اس طرف
اب کیا بتایئے کہ میں کیا کرنے آیا ہوں

کہنی ہے دوسروں سے الگ میں نے کوئی بات
میں کام کوئی سب سے جدا کرنے آیا ہوں

اک داغ ہے کہ جس کا لگانا ہے اب سراغ
اک زخم ہے کہ جس کو ہرا کرنے آیا ہوں

انجام کار دل کا یہ دروازہ توڑ کر
میں سارے قیدیوں کو رہا کرنے آیا ہوں

رکھتا ہوں اپنا آپ بہت کھینچ تان کر
چھوٹا ہوں اور خود کو بڑا کرنے آیا ہوں

جو کر رہے ہیں ایسے ہی کرتے رہیں گے سب
میں تو فضول چون و چرا کرنے آیا ہوں

خیرات کا مجھے کوئی لالچ نہیں ظفرؔ
میں اس گلی میں صرف صدا کرنے آیا ہوں