جو مجھ سے دور جانا چاہتا تھا
وہ میرے ساتھ ہی پکڑا گیا تھا
میں اپنی مٹھیوں میں قید تھا یا
مجھے ایسا کسی نے کر دیا تھا
مری آنکھیں تو میں نے نوچ لیں تھیں
مجھے پھر بھی کسی نے پڑھ لیا تھا
بچھڑتے وقت بھی دل کچھ نہ بولا
یہ پاگل ضبط کر کے رہ گیا تھا
تھا اس سے عشق کا اظہار کرنا
مجھے کچھ اور ہی کہنا پڑا تھا
اسے مجھ سے رہائی چاہیے تھی
میں اپنی لاش پر بیٹھا ہوا تھا
کہا دونوں نے اک دوجے کو بہتر
بس اس کے بعد جھگڑا ہو گیا تھا
جہاں کے تبصرے سے تنگ آ کر
بہت نقصان ہم نے کر لیا تھا
ستارے بڑھ رہے تھے میری جانب
مگر وہ چاند کیوں ٹھہرا ہوا تھا
مرے یارو تمہاری ہی بدولت
سفر جاری ہوا ہے، رک گیا تھا
کبھی آواز دی تھی منتظرؔ کو
میں اپنے آپ سے ٹکرا گیا تھا
غزل
جو مجھ سے دور جانا چاہتا تھا
منتظر فیروز آبادی