EN हिंदी
جو معترف تھے مرے شجرۂ نسب کے سب | شیح شیری
jo motarif the mere shajra-e-nasab ke sab

غزل

جو معترف تھے مرے شجرۂ نسب کے سب

خواجہ رضی حیدر

;

جو معترف تھے مرے شجرۂ نسب کے سب
وہ لوگ ہو گئے رخصت یہاں سے کب کے سب

فضائے نسبت و قربت ہے گرد گرد مگر
سمجھ رہے ہیں مرے دل کا حال سب کے سب

وہ لوگ جن کی حمایت میں خود سے لڑتا رہا
وہ لوگ ہو گئے میرے خلاف اب کے سب

روش میں اوروں کے اسلاف کی روش نہ رہی
سو قصے لکھے گئے میرے ہی نسب کے سب

میں دوسروں کی طلب میں بحال ہوتا رہا
غلام ہوتے رہے اپنی ہی طلب کے سب

وہ حرف جس سے اٹھا ہے مری نوا کا خمیر
ہیں منتظر اسی اک حرف زیر لب کے سب

اسے خبر تھی کہ میں ایک شب کا مہماں ہوں
سو بند وا کیے اس نے قبائے شب کے سب

کسی رہائی کا احوال جاننے کے لیے
سرہانے بیٹھے ہیں خاموش جاں بہ لب کے سب

چراغ اور قلم آنکھ اور حیرانی
یہ استعارے ہیں گویا مری طلب کے سب

یہ رنجشیں ہیں رضیؔ اور ہی تعلق سے
یہ سلسلے ہیں کسی اور ہی طرب کے سب