جو مرے ہم عصر ہم صحبت تھے سو سب مر گئے
اپنی اپنی عمر کا پیمانہ ہر یک بھر گئے
پوچھتے کیا ہو گناہوں کے گرفتاروں کا حال
خشک زاہد تھے سو اس جاگہ سے دامن تر گئے
ہاتھ سے صیاد کے ثابت نہ چھوٹا ایک صید
بال و پر رکھتے تھے سو بے بال اور بے پر گئے
یہ قمار عشق ہے اے بو الہوس بازی نہ جان
سر گئے بہتوں کے اور بہتوں کے اس میں گھر گئے
ہم نے ہستی اور عدم کی آ کے کی ہے خوب سیر
رسم و آئیں دیکھ ان لوگوں کا از بس ڈر گئے
ایک جو آیا اسے لے گود میں دی گھر میں جا
دوسرے کو کاڑھ کر گھر سے زمیں میں دھر گئے
تم کہو اپنی میاں حاتمؔ کہ ہو کس فکر کی
اور جو آئے جنے جیسی بنی سو کر گئے
غزل
جو مرے ہم عصر ہم صحبت تھے سو سب مر گئے
شیخ ظہور الدین حاتم