جو مرے دل میں ہے لوگوں سے چھپاؤں کس طرح
کانچ کے اس شہر کو خالدؔ بچاؤں کس طرح
تو تو پہلے سے بھی اب معصوم ہے میرے لیے
میں تری عزت کو مٹی میں ملاؤں کس طرح
اپنا پیکر بھی مجھے زنداں نظر آنے لگا
کشمکش میں ہوں رہائی خود سے پاؤں کس طرح
میں کسی کے عدل کی ٹوٹی ہوئی زنجیر ہوں
مجھ پہ جو بیتی ہے دنیا کو بتاؤں کس طرح
دیکھ کس عکس مقابل جسم پتھر ہو گیا
چھوڑ کر اب آئنہ خانے کو جاؤں کس طرح
جاگتے لمحوں کی زنجیروں میں ہوں جکڑا ہوا
خواب کی دیوار کے سائے میں آؤں کس طرح
رتجگوں کے شہر میں جا کر اسے کیا ہو گیا
وہ تو کہتا تھا کہ میں تجھ کو بھلاؤں کس طرح

غزل
جو مرے دل میں ہے لوگوں سے چھپاؤں کس طرح
خالد شیرازی