جو مرے دل میں آہ ہو کے رہی
وہ نظر بے پناہ ہو کے رہی
میں ہوں اور تہمت زبونیٔ دل
بے گناہی گناہ ہو کے رہی
خلش دل پہ کچھ بھروسا تھا
وہ بھی تیری نگاہ ہو کے رہی
دل کی عشرت پسندیاں توبہ
ہر تمنا گناہ ہو کے رہی
غزل
جو مرے دل میں آہ ہو کے رہی
حبیب اشعر دہلوی