جو مل گئی ہیں نگاہیں کبھی نگاہوں سے
گزر گئی ہے محبت حسین راہوں سے
چراغ جل کے اگر بجھ گیا تو کیا ہوگا
مجھے نہ دیکھ محبت بھری نگاہوں سے
بلا کشوں کی اندھیری گلی کو کیا جانے
وہ زندگی جو گزرتی ہے شاہراہوں سے
لبوں پہ مہر خموشی لگائی جائے گی
دلوں کی بات کہی جائے گی نگاہوں سے
ادھر کہا کہ نہ چھوٹے ثواب کا جادہ
ادھر سجا بھی دیا راہ کو گناہوں سے
فضائے مے کدۂ دل کشا میں آئی ہے
حیات گھٹ کے جو نکلی ہے خانقاہوں سے
مری نظر کا تقاضا کچھ اور تھا اے دوست
ملا نہ کچھ مہ و انجم کی جلوہ گاہوں سے
خزاں کی وادئ غربت گزار لیں تو شمیمؔ
ملیں دیار بہاراں کے کج کلاہوں سے
غزل
جو مل گئی ہیں نگاہیں کبھی نگاہوں سے
شمیم کرہانی